یزید بن معاویہ
یزید بن معاویہ کی شخصیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
اُن کا پورا نام، یزید بن معاویہ بن ابی سفیان بن حرب بن اُمیّہ الاُموی الدمشقی ہے۔امام ذہبی اپنی کتاب” سیر اعلام النبلاء” میں لکھتے ہیں:
”یزید بن معاویہ غزوہ قسطنطینیہ میں مسلمانوں کے سپاہ سالار تھے،جبکہ اُسی لشکر میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے بعض صحابہ بھی موجود تھے۔مسلمانوں پر اُن کی ولایت اور حکمرانی کا معاملہ اُن والدحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حین حیات طے کرادیا تھا۔اُن کی وفات کے بعد یزید بن معاویہ نے ہجرت کے ٦٠ ویں سال رجب کے مہینے میں مسلمانوں کی حکمرانی کا عہدہ سنبھالا۔اُس وقت اُن کی عمر ٣٣ سال تھی۔اُن کا دور حکومت چار سال سے بھی کچھ کم رہا۔
امام ذہبی کہتے ہیں :یزید بن معاویہ اُن شخصیات میں سے ہیں جنہیں ہم برا کہتے ہیں،نہ اچھا۔اُموی اور عباسی، دونوں سلطنوں کے حکمرانوں میں یزید جیسی اور بھی شخصیات گزری ہیں۔جیسا کہ اِن دونوں سلطنتوں کے علاوہ بھی مسلمان بادشاہوں میں اُن کے نظیر موجود ہیں۔بلکہ مسلمان بادشاہوںمیں تو بعض اِن سے بھی بد تر لوگ تاریخ میں گزرے ہیں۔اِن کا معاملہ تو بس اِس وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے محض ٤٩ سال بعد اُس دور میں مسلمانوں کے حکمران بن گئے،جب بعض اکابر صحابہ ابھی بقید حیات تھے۔مثال کے طور پر سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ موجود تھے، جو اِس عہدے کے لیے یزید،اُن کے والد اور اُن کے دادا سے بھی بہتر تھے۔
حضرت حسین کی شہادت سے اُن کا دورِ اقتدار شروع ہوکر’حرۃ’ کے واقعے پر اختتام پذیر ہوا۔بہرحال لوگوں نے اِن کو پسند نہیں کیا۔اوریہ بہت طویل عرصے زندہ بھی نہیں رہے۔حضرت حسین کے بعد متعدد بار اُن کے خلاف بغاوت بھی ہوئی جیساکہ اہل مدینہ نے بغاوت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بغاوت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ”۔ (٤/٨٣)
امام ابن تیمیہ، یزید بن معاویہ کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یزید بن معاویہ کے بارے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ایک گروہ کا کہنا ہے کہ وہ کافر اور منافق تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینے کی خاطراُس نے آپ کے نواسے کا قتل کرایاتھا۔ تاکہ اپنے داداعتبہ اور اُن کے بھائی شیبہ اور اپنے ماموں ولید بن عتبہ اور اپنے دیگر اُن اعزہ کا بدلہ لے جنہیں غزوہ بدر اور بعض دوسرے مواقع پر صحابہ رسول نے قتل کیا اور جو علی بن ابی طالب کے ہاتھوں قتل ہوئے۔یہ اور اِسی طرح کی بعض دیگر باتیں بھی اِس نقطہ نظر کے حاملین کرتے ہیں۔اور یہ اُن روافض کی رائے ہے جو سیدنا ابوبکر،عمر،عثمان رضی اللہ عنہم کی بھی تکفیر کرتے ہیں۔چنانچہ اُن کے لیے یزید کی تکفیر تو اوربھی ہلکی بات ہے۔
دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یزید بن معاویہ ایک نیک اور صالح،عادل حکمران تھے۔اوراُن صحابہ میں سے تھے جن کی پیدائش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ اور جنہیں آپ نے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور برکت کی دعادی تھی۔یہاں تک کہ اِس نقطہ نظر کے بعض حاملین تو یزید بن معاویہ کوسیدنا ابوبکر وعمر رضی عنہما سے بھی زیادہ افضل قرار دیتے ہیں۔اور اُن میں بعض ان کو نبی کے درجے میں فائز سمجھتے ہیں۔
یزید بن معاویہ سے متعلق مذکورہ بالا دونوںہی نقطہ ہاے نظر ہر اُس شخص کے نزدیک بالبداہت باطل ہیں جسے اللہ نے علم وعقل سے نوازا ہے اور جو متقدمین کی سیرت سے واقف ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اِن اقوال کو اہل سنت کے معروف علما اور اہل علم ودانش میں سے کسی کی نسبت بھی حاصل نہیں ہے۔
تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یزید بن معاویہ مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھے۔اُن کی شخصیت میں کچھ اچھائیاں تھیں،توکچھ برائیاں بھی موجود تھیں۔وہ سیدنا عثمان کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے۔کافر نہیں تھے۔اُن کے سبب سے حضرت حسین کی شہادت کا حادثہ ہوا۔اور اہل حرۃ کے ساتھ اُنہوں نے جو کچھ کیا، وہ بھی معلوم ہے۔وہ صحابہ میں سے تھے،نہ اللہ کے نیک اور صالح اولیاء میں سے ہی تھے۔مسلمانوں کے عام اہل علم وعقل اوراہل سنت والجماعہ کا یہی نقطہ نظر ہے۔پھر مسلمانوں میں مزید تین گروہ بن گئے۔ایک یزید پر لعن طعن کرتا،دوسرا اُنہیں پسند کرتا اور تیسرا برا کہتا ہے، نہ بھلا سمجھتا ہے۔یہ تیسرا رویہ ہی ہے جو امام احمد بن حنبل،اُن کے متوازن رائے رکھنے والے شاگردوں اور دیگر اہل علم سے منقول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ”۔ (مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ،٤/٤٨١-٤٨٤)