کیا جادو کا کلام اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے

kia jadoo ka kalam allah nay utara 001kia jadoo ka kalam allah nay utara 002kia jadoo ka kalam allah nay utara 003kia jadoo ka kalam allah nay utara 004kia jadoo ka kalam allah nay utara 005kia jadoo ka kalam allah nay utara 006kia jadoo ka kalam allah nay utara 007kia jadoo ka kalam allah nay utara 008kia jadoo ka kalam allah nay utara 009kia jadoo ka kalam allah nay utara 010

 کیا جادو کا کلام اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے

جادو کا کلام اور عبارت بندوں کی بنائی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے کوئی کلام و عبارت جادو کی نہیں اتاری یہ عقیدہ یہودیوں کا تھا ۔ جیسا کہ تفسیر ابن کثیر اردو حصہ اوّل صفحہ نمبر ۱۵۱ میں ہے کہ یہودیوں میں مشہور تھا کہ سلیمان ؑ رسول نہ تھے بلکہ جادوگر تھے۔ ان کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ جادو فرشتوں پر نازل ہواتھا ۔ پہلے عقیدے کا اللہ تعالیٰ نے یوں ردکیا کہ’’وَمَاکَفَر َسُلِیْمٰنُ‘‘      ترجمہ: سلیمان ؑ نے کوئی کفر نہیں کیا ۔کفرتوشیاطین نے کیاجو لوگوں کوجادو سکھاتے تھے اوردوسرا عقیدہ کہ فرشتوں پرجادو ناز ل ہواہے اس کا یوں رد فرمایا۔ ’’ وَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ‘‘ ترجمہ: فرشتوںپر کوئی( جادو)نہیں اتاراگیا ۔    دونوں مقامات پر مَا نافیہ ہے اور قانون فصاحت کا بھی یہی تقا ضا ہے کہ دونوں مقامات پر’’مَا‘‘ نافیہ ہو اور تمام محققین نے ’’مَا اُنْزِلَ‘‘کی ’’مَا‘‘کو نافیہ بنایا ہے ۔ ا بن عباسؓ، ربیع بن انسؓ،قرطبی ، ابن حزم فی ظلال القر آ ن ، ترجما ن القرآن،ابوالکلام آزاد،شیخ زادہ،عثمانی صاحب، ثناء اللہ امرتسری ،نواب صدیق الحسن وغیر ھم نے یہاں ’’ مَا‘‘  کو نافیہ بنایا ہے ا گر لفظ ’’مَا‘‘ کو نافیہ نہ بنایا جائے بلکہ ’’مَا‘‘ کو مو صولہ بنایا جائے۔ جیسا کہ احکام القرآن والے امام جصاص نے لکھاہے کہ ’ ’ وَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ‘‘کا عطف ’’وَلٰـکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا‘‘لفظ ’’کَفَرُوْا‘‘ پر ہے اور معنی یہ ہیں کہ شیطانوں نے کفر کیاجو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور کفر کیا اس بات کا جو ملکین فرشتوں پر نازل کی گئی تھی وہ بات جو ہاروت ماروت پر بابل شہر میں اتاری گئی تھی وہ یہ تھی کہ کاروبار جادو کفر ہے تم کفر نہ کر و۔  ْ  ْ فَلَا  تَکْفُرْ‘‘لیکن لوگوں نے اس بات کے ماننے سے انکار کر دیا اور کفر کرنے لگے بعض نے ہاروت وماروت کو جادو گر شیا طین کا سردار بنایا ہے اور معنی اس طرح کئے ہیں کہ ملکین فرشتوں پر کوئی جادو نہیں اتارا گیا اور ہاروت ماروت شیاطین جادو گروں کے سردار تھے یعنی بڑے پادری جادو گر تھے۔     (ابن کثیر )                  ابو الکلام آزادکی ایک عبارت پڑ ھئے ’’ جا دو کا اعتقاد دنیا کی قدیم اور عالمگیر گمراہیوں میں سے ہے ۔ اور نوع انسانی کے لئے بڑی مصیبتوں کا باعث ہو چکا ہے قرآن نے آج سے کئی سو برس پہلے اس کے بے اصل ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن افسوس کہ دنیا متنبہ نہ ہوئی اور ازمنہ وسطی کے مسیحی جہل و قسا دت نے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو زندہ جلا دیا تھا ‘‘۔  (تفسیر ترجمان القرآن)    پس معلوم ہوا کہ جادو اللہ تعالیٰ نے نہیں اتارا بلکہ گمراہی ہے بے اصل، بے حقیقت اور بے بنیاد ہے ۔ اگر با لفرض والمحال جادو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو وہ کہاں ہے اور کون سی اس کی عبارت ہے چونکہ جادو کے ماننے والوں نے نبی پر جادو کا اثرمان کر دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اوردورصحابہؓ تک جادو کی کلام کا وجود ثابت کر دیا اور جادو گر ایسی کلام کو کب ضائع ہونے دیتے بقول ان کے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہو اور جس کی تاثیر سے نفع و نقصان یقینی اور برحق ہو۔ اگر کوئی کہے کہ لبید بن عاصم نے اللہ تعالیٰ کے کلام سے جادو نہیں کیا تھا بلکہ اس نے انسانوں کی بنائی ہوئی کلام سے جادو کیا تھا تو اس سے بڑھ کر اور شرک کیا ہو گا کہ انسانوں کے جنتر منتر میں نفع و نقصان کی تاثیر مان لی اور نیز اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم منسوب کر دیا کہ جب بقول ان کے جادوگر جنتر منتر تعویذگنڈے کا عمل کرتا ہے تو اس کے کاموں میں جن کو وہ کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اثرپیدا کر دیتا ہے اور یوں جادوگروںکے جادو کا اثرہو جاتاہے اورانہوں نے ’ ’  بِاِذْنِ اللّٰہِ ‘‘ کا یہی معنی کیا ہے ۔اب اللہ تعالیٰ کا ارشاد پڑھئے !  وَلَوِا تَّبَعَ الْحَقُّ اَہْوَآئَ ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَط بَلْ اَتَیْنَھُمْ بِذِکْرِ ھِمْ فَھُمْ عَنْ ذِکْرِ ھِمْ مُّعْرِضُوْنَ o    (۷۱ ۔۔۔ المو منو ن) ترجمہ: اگر سچا رب ان کی خواہشات پر چلے تو آسمان ،زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جائے بلکہ ہم ان کا اپنا ذ کران کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں۔فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَ بَ عَلَی اللّٰہِ وَکَذَ بَ بِالصِّدْقِ اِذْجَآئَ ہٗط اَلَیْسَ فِیْ جَھَنَّمَ مَثْوًی الِّلْکٰفِرِیْنَ o تر جمہ: پھر اس شخص سے بڑ ا ظالم کون ہو گا جس نے اللہ تعالیٰ پر جھو ٹ بولا اور جب سچا ئی اُس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلادیا ۔کیا کا فروں کا جہنم میں ٹھکانہ نہیں ہے؟   (الزمر۔۔۔۳۲) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی خواہشات کی اتبا ع نہیں کرتا تو جادو گر کی خواہشات کی اتباع کیسے کرے گاــ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہٗ ط وَیُخَوِّ فُوْ نَکَ بِا لَّذِ یْنَ مِنْ دُ وْ نِہٖ ط ترجمہ : کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں ۔    ( الزمر۔۔۔۳۶)  کیا اس آیت کے آخر میں یہ عبارت ساتھ لگا دیں؟ ہاں مگر جادو گر سے انکا ڈرا نا صحیح ہے چو نکہ جادو گروں کا جادو مؤ ثر ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر اچھے اور برے اثرات پیدا کر دیتا ہے لہٰذا جا دو گر اور اسکا جادومِنْ دُوْنِ اللّٰہِ میں داخل نہیں ہے اَلْعِیَاذْ بِاللّٰہِ اَسْتَغْفِرُا للّٰہِ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر بہتان اور کیا ہو گا۔ اب سورۃ البقرہ کی آیت ۱۰۲ کے متعلق مفسرین کی تفسیرین پڑھیں۔آیئے تفسیر بدیع التفاسیر پڑھتے ہیں:  ۱  ۔ خود قرآنی مضمو ن میں ایسے قرائن مو جود ہیں جو اس واقعہ کو غلط ثا بت کرنے کے لئے کا فی ہیں ۔۱۔ایک طرف تو اللہ تعا لیٰ جادو کو کفر قرار دیتا ہے’ وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ ‘ تو دو سری طرف یہ کہنا کیسے درست ہو گا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فر شتو ں کی طر ف حکم کیا ہو کہ لو گو ں کو جادو سکھائیں ۔ ’’ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکْ‘‘ ۲ ۔ اللہ تعا لیٰ کا فر مان ہے ’’ وَلٰـکِنِّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ‘‘یعنی کفر شیا طین نے کیا جو لو گو ں کو جادو سکھا یا کرتے تھے پھر ایسی باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کیسے حکم کرے یہ نا ممکن ہے ۔ ۳۔ آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جادو سکھانا کفر ہے پھر ایسا کام اپنے فرشتو ں سے کیسے لیا جا سکتا ہے حالانکہ وہ مقدس اور پاک مخلوق ہیں ۔ ۴۔’’ فَلَا تَـکْفُرْ ‘‘ جب جادو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھاتے ہیں تو پھر اسکی نفی کا کیا مقصد ۔ ۵۔ جس کام کو اللہ تعالیٰ غلط قرار دے مر تکبین کے لئے آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو وہ کام پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے سکھائیں یا انکی طرف یہ حکم کیا جائے بعید از قیاس ہے۔۶۔مضمون صاف بتلا رہا ہے کہ کتاب اللہ اور جادو کا علم دو نوںمتضاد ہیں اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ذہنیت بیان کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب چھوڑ کر جادو کے پیچھے پڑ گئے نیز اللہ تعالیٰ ایسے دو حکم کیسے بھیجے گا جو ایک دوسرے کے بر خلاف ہوں ۔ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا o    ( النسائ۔۔۔۸۲)ترجمہ:اور اگر کہیں ہوتا یہ(قرآن) غیر اللہ کی طرف سے تو ضرور پا تے یہ اس میں بہت زیادہ اختلاف۔۷۔ جادو کے علم سے خصوصاً یہ کام لیتے تھے کہ زوجین کے درمیان جدائی اور افتراق کراتے ایساعلم نہ فرشتوں کے شایان شان ہے اور نہ وحی کے لائق ۔                                                               ۸۔جس علم کو اللہ تعالیٰ ضرررساںبتائے اس علم کو فرشتے کیسے سکھاسکتے ہیں۔۹۔یہاں بابل شہر کا ذکر ہے حالانکہ یہ شہر مشہور ہے کئی مورخ اور سیاح اسکو دیکھ چکے ہیں لیکن کوئی ایسی چیز وہاں نظر نہیں آئی ۔۱۰۔ اگر فرشتوں پر ایسا حکم نازل ہوتا تو وہ پہلے سلیمانؑ کو بتاتے اور سکھاتے کیونکہ فرشتے نبیوں ؑاور رسولوں ؑکی طرف آتے ہیں مگر یہاں تواللہ تعالیٰ انکار فرماتا ہے کہ سلیمانؑ نے نہیں بلکہ شیاطین نے کیا اس لئے یہ قصہ ہی بے بنیاد ہے ۔(ترجمہ صفحہ ۷۰ جلد۳ بدیع ا لتفاسیر بدیع الدین شاہ راشدی) ۲۔ ’ ’ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ،، یہ’’ مَا‘‘ نافیہ ہے اور وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ پر عطف ہے یعنی یہ کفر (جادوکرنایاسیکھانا) نہ سلیمان ؑنے کیا اور نہ دونوںفرشتوںکی طرف ایسا حکم نازل ہوایعنی یہودیوںکے قول کو رد اور جھوٹاقراردیا۔ وہ کہتے تھے کہ سلیمان ؑجادو کرتے تھے اسی نے ہمیں سکھایااور یہ بھی کہا کہ دو فرشتوں کی طرف یہ حکم نازل ہوا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سارا کام شیاطین کا ہے اوروہی انہیں سکھاتے تھے۔ تفسیر قرطبی صفحہ۴۴ جلد ۲میںدوسرے کئی محققوں اورمفسرین نے اسی طرح لکھا ہے ا سی طرح آ یت کا ترجمہ کیا ہے اور جو مفسرین ’ ’ مَا‘‘ کو موصولہ کہتے ہیں ان کے مطابق مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنَ پر عطف ہو گا اور معنی ہوں گے کہ یہی یہودی کتاب اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس کو شیا طین نے پڑھایعنی جادو سکھاتے اور جو دو فرشتوں پر اتارا گیا اسی کی پیروی کرتے ہیں مگر ہم نے اوپر دس قرائن ذکر کئے ہیں جس کے نتیجے میں یہ معنی درست نہیں ہیں کیونکہ یہ معنی اسلامی عقائد کے خلاف اور فرشتوں کی شان کے منافی بھی ہے کئی دو سرے مقا صدکے حامل بھی ہیں اس لئے و ہ معنی صحیح ہیں جو ہم نے ذکر کئے ہیںیعنی ’’مَا‘‘  نافیہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اسی الزام اور بہتان کو غلط ٹھہرایا بلکہ یہ کہا کہ جادو اور اس کی تعلیم شیطان کی طرف سے ہے اور فرشتوں کی شان اس سے بلند ہے محض (غلط ) موضوع روایات کی بنیاد پر ایسی تفسیر کرنا قطعًا درست نہیں بلکہ قرآن کی شان کے خلاف ہے ۔                     (ترجمہ : صفحہ۸۵ بدیع التفاسیر جلد۳)                ۳۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔   وَلٰکِنِّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَق وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ط  ترجمہ: لیکن  شیا طین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اوروہ با بل میںدو فرشتوں ھاروت وماروت پر نہیں نازل کیا گیا تھا ۔  (البقرہ ۔۔۔۱۰۲ )   اللہ تعالیٰ نے ہرگزنہیں فرمایا کہ ھا رو ت و ماروت نے سحرو کفر کی تعلیم دی ۔  (المل والنحل ابن حزم ۔مترجم عبداللہ عمادی صفحہ ۵۸۰،۵۸۲ جلد ۲)اس کے بعد ایک اور مشہور اہل حدیث فضل احمدغزنوی کی تفسیر الغزنوی دیکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنَ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَج وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنِّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَق وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ط اور( تورات کو چھوڑکر ) اس چیز (جادو ) کی پیروی کی جو شیطان لوگ عہد سلیمان ؑمیں پڑھا کرتے تھے (جادو کو سلیمان ؑکی طرف منسوب کرتے تھے ) حالانکہ سلیمان ؑنے (جادو سیکھنے سکھانے اور منوانے ماننے کا ) کفر ہرگز ہرگز نہ کیا تھا۔ لیکن شیا طین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اوریہ بھی غلط ہے کہ بابل(شہر) میںدو فرشتوں ھاروت وماروت پر(کوئی جادو یاسحر) نازل کیا گیا تھا۔    (البقرہ۔۔۔۱۰۲)   (جس کی سند سے یہ شیطان لوگ جادو کا جواز نکالتے ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ )وہ دونوں فرشتے در حقیقت جادو کی اصلیت لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے ۔    (تفسیر الغزنوی صفحہ۱۱۶)   یہاں بھی ایک اہل حدیث عالم کس قدر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے یہ بھی غلط ہے کہ بابل شہر کے دو فرشتوں ھاروت وماروت پر کوئی جادو یا سحر نازل کیا گیاتھا اس لئے اب جادو کو ماننے والوں کے ذہن کھل جانے چاہئیں قرآن میں اس آیت کریمہ میں  ’’وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ‘‘ میں’’ مَا‘‘ کو نا فیہ ماننا بھی مفسرین سے ثابت ہے اور قرین قیاس بھی یہی ہے۔

  وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنَ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَج وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنِّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَق وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَـلَا تَکْفُرْ ط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَامَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِہٖ ط وَمَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَایَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ ط وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَہٗ فِی الاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ط وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ ط لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ o

ترجمہ: اور پیچھے ہو لئے ان باتوں کے جو شیاطین سلیمان ؑکے زمانے میں پڑھتے تھے اور سلیمان ؑ نے کہیں کفر نہیں کیا۔ ان شیاطین یعنی ہاروت ماروت نے کفر کیا اور لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور نہ اتارا گیا تھا دو فرشتوں پر( شہر ) بابل میں اور وہ کسی کو جادو نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو خود مبتلا ہیں پس تو کافر مت ہو پھر بھی لوگ سیکھتے ان سے وہ کلامات جن کی وجہ سے خاوند بیوی میں جدائی ڈالتے اور وہ کسی کو سوائے اذن اللہ کے کسی کوضرر نہ دے سکتے تھے اور لوگ وہی چیز سیکھتے جو ان کو ضرر دے اور نفع نہ بخشے حالانکہ یقینا جان چکے تھے کہ جو شخص اس کو لے گا قیا مت میں اس کے لئے حصہ نہیں برا ہے وہ کام جس کے بدلہ میں اپنی جانوں کو عذاب میں دے چکے ہیں کاش یہ سمجھتے ۔    (البقرہ۔۔۔۱۰۲)سلیمان ؑکے زمانے میں پڑھتے تھے اور رواج دیتے تھے جن میں کئی باتیں کفر کی تھیں لیکن حق یہ ہے کہ سلیمان ؑکے زمانہ میں ایسے واقعات ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بھی ا س میںشریک تھا حا شا و کلا سلیمان ؑنے تو کبھی کفر نہیں کیا ہا ں بدمعاش شیا طین یعنی ھاروت ماروت نے کفر کیا۔اورکفر کی باتیں عوام میں پھیلاتے تھے اور لو گوں کو جادو کے کلمات سکھاتے تھے اور طرح طرح سے عوام کو و رغلاتے یہ بھی مشہور کرتے تھے کہ یہ کلمات جادو گری کے آسمانی علم جبرا ئیل اور میکا ئیل دونو ں فرشتوں پر شہر با بل میں اترا تھا حالا نکہ نہ  اتا را گیا تھا ان دو فرشتوں پر شہر با بل میں نہ کو ئی آسمانی علم تھا بلکہ محض یہ اُن ہاروت وماروت کی چال بازی تھی۔اس سے غرض ان کی صرف وثوق جتلانا تھا اس لئے تو ان کی یہ عادت تھی کہ زبانی جمع خر چ سے بہت کچھ کرتے اور کسی کو جادو نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ میاں!ہم تو خود بد کردار بلا میں پھنسے ہیں پس تو بھی مثل ہمارے ایسی باتیں سیکھ کر کافر نہ ہواس بات کو کہنے سے اُن کا جاہلوں میںاور بھی زیادہ رسو خ پیدا ہو جاتا اور عوام میں مشہور ہو جاتا کہ سائیں بڑے منکسر المزاج ہیں جیسا کہ فی زمانہ دغا باز پیروں کا کام ہے ۔پھر بھی لوگ ان سے متنفر نہ ہوتے اُن سے وہ کلمات سیکھتے جن کی وجہ سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالتے اور ا س کے عوض زانیوں سے کچھ کماتے اور اللہ تعالیٰ کا غضب اپنے پر لیتے۔ یہ مت سمجھو کہ ان کے منہ میں کو ئی خوبی تھی یا قلم میں کو ئی تا ثیر تھی کہ جس کو چاہیں نقصان پہنچائیں بلکہ اُن کے کلمات بھی مثلِ ادویہ کے تھے جب ہی کسی کو سوا ئے اذن اللہ کے ضررنہ دے سکتے تھے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ کہ ہر فعل انسانی پر اس کے مناسب اثر پیدا کر دیتا ہے اگر کوئی سرد پانی پیتا ہے تویہ پانی اُسے ٹھنڈک بخشتا ہے زہر کھا تا ہے تو اس کی جا ن بھی ضائع ہو جاتی ہے اسی طرح اُن کے جادو کا حال تھا کہ وہ ان کے حق میں مثل زہر کے مضر تھا لیکن وہ بہت خو شی سے اُس کا استعمال کرتے اوراللہ تعالیٰ اپنی عادت ِ جاریہ کے موافق اُس پر آثار بھی ویسے ہی مرتب کر دیتا مگر وہ لوگ اِ س بھید کو نہ سمجھتے اور وہی چیز سیکھتے جو اُ ن کو ہر طرح سے جسما نی اور روحانی ضرر دے ۔اور کسی طرح سے نفع نہ بخشے تعجب ہے کہ اس زمانہ کے مدعیان ِ علم بھی اُن کے پیچھے ہو لئے ہیں حالانکہ یقینا جان چکے ہیں کہ جو شخص اُس جادو کی واہیات باتوں کو لے گا اُس کے لئے تا قیا مت بھلا ئی سے حصہ نہیں باوجود اس جاننے کے اس میں ایسے منہمک ہیں کہ اپنی جانوں تک بھی اس کے عوض دے کر عذاب کے مستو جب ہو رہے ہیں یاد رکھیں برا ہے وہ کام جس کے بدلے میں اپنی جانوں کوعذاب میں دے چکے ہیں کاش یہ لوگ سمجھتے یہ جانتے اور سمجھتے ہیںپر جاننے پر جب عمل نہیں تو گویا جانتے ہی نہیں      حاشیہ نمبر ۱۳: اس آ یت کی نسبت مفسرین نے عجیب عجیب نقشے بھرے ہیں کچھ تو سلیمان ؑ کی نسبت اور کچھ ہاروت و ماروت کی نسبت ۔کسی نے ہاروت اورماروت کو فرشتہ بنایا اور بنی آدم بنا کر زمین پر اتارا۔ فاحشہ عورت سے زناکرنا،شراب پینا ، بت کو سجدہ کرنا،پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دنیاوی اور اُخروی عذاب میں مبتلا کرنا اور ان کا لوگوں کو جادو سکھانا بتلایا ہے۔ مگرامام رازی جیسے محققوں نے ان سب قصوں کو خرافات اوراباطیل سے شمار کیا ہے جو ترجمہ میں نے کیا ہے وہی قرطبی نے پسند کیا ہے چنانچہ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان میں مذکور ہے مولانانواب محمدصدیق الحسن خان صاحب نے بھی نقل کیا ہے بلکہ تر جیح دی ہے کہ ہاروت وماروت شیاطین سے بدل ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ شیاطین سے یہی دو شخص ہاروت و ماروت مراد ہیں اگر قرآن مجید کی آیات پرغور کریںتویہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اِس آیت کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے شیاطین کا فعل تعلیمِ سحر فرمایا ہے ۔ـ’ ’ یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَق ‘‘ ترجمہ: لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔  اور دوسرے حصے میں اسی تعلیمِ سحر کی کیفیت بتلائی ہے۔ ’’ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ‘‘ ترجمہ: اور وہ کسی کو جادو نہ سکھاتے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے دونوں تعلیموں کے معلم ایک ہی ہیںیعنی شیاطین ۔ کیونکہ یہ نہایت قبیح اور مخلِ فصاحت ہے کہ مجمل فعل کے ذکرکے موقع پر تو ایک کو فاعل بتلایا جاوے اور تفصیل کے موقع پر کسی اور کو بتلایا جاوے۔ رہا یہ سوال کہ مبدل منہ جمع ہے یعنی شیاطین اور بدل تثنیہ ہے یعنی ہاروت ماروت۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مبدل میںجمعیت بااعتباراتباع کے ہیں اور بدل تثنیہ باعتبارذات کے ہے ۔ پس مطلب آیت کا بالکل واضح ہے کہ یہود کی اس امر میں شکایت ہورہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو چھوڑ کر واہیات باتوں کے پیچھے لگ گئے پھر لطف یہ کہ اُن واہیات عقائد اور اباظیل کو بزرگوں کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ سلیمان ؑنے یہ باتیں سکھائی ہیں اور اُس پر اللہ تعالیٰ کے دو فرشتے جبرائیل میکائیل لائے تھے ۔سو اُن کی اس آیت میں تکذیب کی جاتی ہے کہ یہ باتیں اُ ن کی خرافات سے ہیں نہ سلیمان ؑ نے اُ ن کو سکھلائی ہیں نہ کسی نبی یا فرشتے نے اُ ن کو سکھلائی ہیں بلکہ اُس زمانہ کے بدمعاش جن کے سرکردہ ہاروت و ماروت تھے لوگوں کو ایسی باتیں سکھاتے تھے راقم کہتا ہے یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے کہ عقائد میں اُن کے وہ خرابیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کوئی کہتاہے کہ پیر صاحب بارہ برس کے ڈو بے ہوئے بیڑے کو مریدنی کی خاطرنکالا ۔کوئی کہتا ہے پیر صاحب نے ایک مرید کے زندہ کرنے کو کئی ہزاررُوحیں عزرائیل سے چھڑادیںکوئی کہتا ہے کہ محفلِ نعت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود تشریف لاتے ہیں غرضیکہ عجیب قسم کے خرافات اپنے ذہنوں میں ڈال رکھے ہیں بعینہٖ وہی عقائد باطلہ جن کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزار ہا پیغمبر بھیجے تھے ان کو نام کے مسلمانوں نے اختیار کر لئے ہیں۔انہیںکی طفیل سے ہمارے قدیمی مہربان پڑوسی آریہ وغیرہ کو یہ جرأت ہوئی کہ عام طور پر کہنے لگے ہیں کہ اسلام میںبھی شرک ہے گو یا اُ ن کا یہ جملہ اسلام پر داناؤں کے نزدیک بزدلانہ طریق ہے مگر اس بات کو تو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں۔          ’’اُڑ گئے دانا جہاں سے   بے شعورے رہ گئے ۔‘‘      یہ توعقائد کا حال ہے اعمال کا تو پوچھئے ہی نہیں تمام عمر بھر دنیاوی کام کر یںگے۔ علوم مروجہ جن سے صرف چند روزہ دنیاوی گذارہ مقصودہو سیکھیں گے بلا سے کبھی آٹھویںروز قرآن کی دو آیتیں پڑھ لیں ؟’’ اِلٰی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی اِلَیْہِ الْمَاٰبُ وَالرُّجْعٰی‘‘۔ افسوس ہم نے بد قسمتی سے یہ سب کچھ دیکھنا تھا۔     ( عکس تفسیر ثنائی صفحہ ۸۶ تا۸۸ )  دیکھیں یہاں بھی اس اہل حدیث عالم نے ’’ما‘‘ کو نافیہ مانا ہے ۔ صرف ڈاکٹر بشیر احمد صاحب نے ’’ما‘‘ کونافیہ نہیں لکھا ۔ باقی مفسرین بھی ہیں جو اس آیت کریمہ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِمیں ’’ما‘‘کو نافیہ ہی لکھ رہے ہیں ۔آیئے ہم مزید حوالہ جات اس بارے میں آپ کو دکھائیں ۔پہلے قصص القرآن سے سحر پر سیر حاصل بحث ملاحظہ کریں۔۱۔شاہ صاحب کی اس تفسیر کے مطابق وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِمیں ’’ما‘‘نافیہ نہیں بلکہ بمعنی ا لذی ہے اس لیے کہ آیت میں سحر اور مَااُنْزِلَکے درمیان معطوف اور معطوف علیہ کی نسبت ہے اور عربی کے قاعدہ سے عطف مغائرت کے لیے ہوتا ہے لہٰذا آیاتِ زیربحث میںسحرالگ شے ہے جو شیاطین کے ذریعہ سے وجود پذیر ہوتا ہے اور فرشتوں کا لایا ہوا علم دوسری شے ہے جو پاک مقصد کے لیے تعلیم کیا جاتا ہے لہٰذا فرشتوں کی جا نب سحر کی نسبت صحیح نہیںہو سکتی ۔یہ تفسیرمعانی کی ترتیب ،سیاق وسباق کی مطابقت اور حقائق و وقائع کی وضاحت کے لحاظ سے بہت وقیع ہے اور اس لیے ہم اسی کو راجح سمجھتے ہیں۲۔ دو سری مشہور تفسیر نحوی فراء میں ہے کہ وہ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِمیں ’’ما‘‘کو نافیہ تسلیم کرتاہے اور کہتا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ بنی ا سرائیل میں سحر کی تعلیم شیاطین کے ذریعہ پھیلی اور اُن کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ سحر سلیمان ؑ کا علم ہے اور یہ بھی غلط کہ بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتے نازل ہوئے اور وہ بنی ۱سرائیل کو جادو سکھاتے اور سکھاتے وقت یہ تنبیہٖ کرتے کہ ہم آزمائش بناکر تمھارے پاس بھیجے گئے ہیں تم اگر سیکھو گے تو ہم ضرور سکھادیں گے مگرتم کافر ہو جائو گے اس لیے تم کو نصیحت کرتے ہیں کہ کفر اختیار نہ کرو اور جب بنی ۱سرائیل اصرار کرتے تو وہ زن و شوہر کے درمیان تفریق کا جادو سکھادیتے ۔ یہ سارا قصہ جو اُن کے درمیان مشہور ہے سب غلط ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔۳۔ تیسری تفسیر امام قرطبیؒ کی جانب منسوب ہے اور ابن جریر بھی اسی کو راجح تسلیم کرتے ہیں کہ آیت وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ میں ’’ما‘‘ نافیہ ہے اور ہاروت وماروت شیاطین سے بدل ہے مطلب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے آسمان کے فرشتے سحر کا علم لے کر آئے تھے بلکہ شیاطین سحر سکھاتے تھے جن میں سے بابل میں دو مشہور شخصیتیں ہاروت وماروت کی تھیں اور وہ جادو سکھاتے تو بنی اسرائیل کی مذہبی زندگی پر طعن کرتے ہوئے یہ کہتے جاتے کہ دیکھو! اگرتم نے ہم سے یہ سحر سیکھا تو تم کافر ہو جائو گے مگر بنی اسرائیل کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اُن سے زن و شوہر کے درمیان تفریق کا جادو سیکھتے اور کتاب اللہ کو پَس ِپُشت ڈال دیتے تھے ہمارے خیال میں آخری دونوں تفسیریں عام تفسیر سے بہتر ہیں کیونکہ عام تفسیر وںمیں’’ما‘‘ کوبمعنی الذی تسلیم کیا گیاہے کہ بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتے بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہو کر سحر سکھاتے اور ساتھ ہی یہ تنبیہٖ بھی کرتے تھے کہ ہم سے یہ علم نہ سیکھو ورنہ کافر ہو جائو گے جس میں سحر اور وَمَآ اُنْزِلَ کو بے دلیل ایک ہی شے تسلیم کرنا ہے ۔

  (عکس قصص القرآن جلد د وم تالیف محمد حفیظ الرحمٰن سیو ہاروی صفحہ۱۶۲تا۱۶۴) 

  محمد حفیظ الرحمٰن سیو ہاروی نے بھی مختلف تفاسیر قلم بند کرنے کے بعد انہی خیا لات کا اظہار کیا ہے ہمارے خیال میں آخری دونوں تفسیریںعام تفسیرسے بہترہیںکیونکہ عام تفسیرکے مطابق’’ما‘‘کوبمعنی الذی تسلیم کر کے یہ مطلب لینا کہ بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتے بنی اسرائیل کی آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہو کر سحر سکھاتے اور ساتھ ہی یہ تنبیہٖ بھی کرتے جاتے تھے کہ ہم سے یہ علم نہ سیکھو ورنہ کافر ہو جائو گے بے وجہ متعدد اشکالات کو دعوت دینا ،سحر اور مااُنزل کو بے دلیل ایک ہی شے تسلیم کرنا ہے۔ اب تو یہ بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو گئی کہ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ میں ’’ما‘‘ نافیہ ماننا خلاف قرآن نہیں بلکہ قرآن سے مطابقت رکھنے والے معنی دیتا ہے۔

Bookmark the permalink.