معوذتین اور جادو !

معوذتین اور جادو !

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !

سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے،،یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں 20 ویں اور 21 ویں نمبر پر نازل ھوئیں جب کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی ،اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی،نبی کریم ﷺ کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کر کے ان کے کانوں میں نبی ﷺکے خلاف زھر انڈیلا جاتا،ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبیﷺ کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی ، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کر کے بے فکر ھو جائیے،ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں،، ان سورتوں کے نزول کے ساتھ ھی نبی ﷺ نے ان کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہ ؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں، ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا،، ان آیات میں صرف ایک آیت ” و من شر النفثاتِ فی العقد” کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟

اب سب سے پہلے نوٹ کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ” قل اعوذُ برب الفلق” تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ “نبی “اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپﷺ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے کریں گی؟؟ ایک معتزلی شیخ جو کہ اللہ کو بھی معطل مانتا تھا، اس کے پاس ایک شخص آیا کہ میری اونٹنی کوئی چوری کر کے لے گیا ھے تو آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ پاک اسے لوٹا لائے ! اب شیخ نے دعا شروع کی ” ائے اللہ تو نے تو نہیں چاھا تھا کہ اس شخص کی اونٹنی چوری ھو،مگر چور کھول کر لے گیا،، ائے اللہ اس کی اونٹنی لوٹا کر لے آ،اس کی یہ دعا سن کر وہ اونٹ چرانے والا دیہاتی بھی تڑپ اٹھا، اس کے ایمان اور ضمیر نےاللہ کی ھستی بے ھمتا کے بارے میں شیخ کے الفاظ اور ان سے مترشح عقیدے کو قبول نہ کیا وہ پکارا ” یاشیخ الغبی ! ابے بیوقوف مولوی جب چور کا ارادہ پہلے ھی میرے رب کے ارادے کو شکست دے چکا ھے تو اب وہ رب میری اونٹنی کیسے لوٹا سکتا ھے؟ کیا وہ چور کی منت سماجت کر کے واپس لائے گا ؟،، چور نے تو میری اونٹنی چرائی تھی مگر احمق انسان تُو تو میرے ایمان پر ڈاکا ڈالنے لگا ھے؟
15 سال معوذتین پڑھنے کے بعد بھی اگر لبید ابن عاصم اللہ کی حفاظت اور نبیﷺ کی عصمت میں نقب لگا چکا ھے تو اب ان سورتوں سے اس شگاف کو کیسے پر کیا جا سکتا ھے ؟ یہ تو سکندر کے گرنے کے بعد پاکستانی پولیس کی ھوائی فائرنگ جیسی بات ھو جائے گی ! کیا ھم پی ایچ ڈی لوگوں سے اس دیہاتی کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی زیادہ نہیں؟

یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبی ﷺ کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا،،تو اب نبی ﷺکو یہ کہنا کہ ” قل اعوذُ برب الفلق’ کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے،یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبیﷺ نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا،بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ جناب معوذتین نام کی دو سورتیں بھی آپ پر 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں،،وہ ڈھونڈیں کدھر رکھی ھوئی ھیں؟ ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبیﷺ پر جادو والی حدیث میں ڈالا،، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں،مگر بعد والوں نے” خالی جگہ پُر کرو” کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا،، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے،، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی ﷺکے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ حضور سوئی نکلنے پر منہ کیسا بناتے ھیں،لکھتے ھیں سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے ،پھر راحت محسوس کرتے !

الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں،، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں،، صرف اس ایک لفظ نفاثات ،، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے،ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں،، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی،،مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ بنا دیتی ھے،، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں،