سورة المجادلة آیت 22 کی تفاسیر – کافروں سے دوستی رکھنا بھی کفر ہے

mujadla-22_tarjam aur tafseer urdu 1mujadla-22_ tarjam aur tafseer urdumujadla-22_ tarjam aur tafseer urdumujadla-22_ tarjam aur tafseer urdumujadla-22_ tarjam aur tafseer urdu

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سورة المجادلة آیت 22 کی تفاسیر

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ۭ وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا   ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   سورة المجادلة 22

ترجمہ:تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں [٢٦] جنوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا ان کے بیٹے ، یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں [٢٧] میں اللہ نے ایمان ثبت کریا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے ۔ وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں ۔ خبر دار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

تفسیرمعارف القرآن (مفتی محمدشفیع)

مسلمان کی دلی دوستی کسی کافر سے نہیں ہو سکتی :

(آیت) لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ پہلی آیات میں کفار و مشرکین سے دوستی کرنے والوں پر غضب الٰہی اور عذاب شدید کا ذکر تھا ، اس آیت میں مومنین مخلصین کا حال ان کے مقابل بیان فرمایا کہ وہ کسی ایسے شخص سے دوستی اور دلی تعلق نہیں رکھتے جو اللہ کا مخالف یعنی کافر ہے ، اگر چہ وہ ان کا باپ یا اولاد یا بھائی یا اور قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو ۔

صحابہ کرام سب ہی کا حال یہ تھا ، اس جگہ مفسرین نے بہت سے صحابہ کرام کے واقعات ایسے بیان کئے ہیں جن میں باپ بیٹے ، بھائی وغیرہ سے جب کوئی بات اسلام یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سنی تو سارے تعلقات کو بھلا کر ان کو سزا دی بعض کو قتل کیا۔

عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے عبداللہ کے سامنے اس کے منافق باپ نے حضور کی شان میں گستاخانہ کلمہ بولا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ میں اپنے باپ کو قتل کر دوں ، آپ نے منع فرما دیا، حضرت ابوبکر کے سامنے ان کے باپ ابو قحافہ نے حضور کی شان میں کچھ کلمہ گستاخانہ کہہ دیا تو ارحم امت صدیق اکبر کو اتنا غصہ آیا کہ زور سے طمانچہ رسید کیا جس سے ابو قحافہ گر پڑے ، آپ کو اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے والد جراح غزوہ احد میں کفار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آئے تو میدان جہاد میں وہ بار بار حضرت ابو عبیدہ کے سامنے آتے وہ ان کے درپے تھے یہ سامنے سے ٹل جاتے جب انہوں نے یہ صورت اختیار کیے رکھی تو ابوعبیدہ نے ان کو قتل کر دیا ، یہ اور ان کے امثال بہت سے واقعات صحابہ کرام کے پیش آئے ، ان پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں (قرطبی)

مسئلہ: بہت سے حضرت فقہاء نے یہی حکم فساق و فجار اور دین سے عملاً منحرف مسلمان کا قرار دیا ہے کہ ان کے ساتھ دلی دوستی کسی مسلمان کی نہیں ہو سکتی ، کام کاج کی ضرورتوں میں اشتراک یا مصاحبت بقدر ضرورت الگ چیز ہے ، دل میں دوستی کسی فاسق و فاجر کی اسی وقت ہوگی جبکہ فسق و فجور کے جراثیم خود اس کے اندر موجود ہوں گے ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے اللھم لا تجعل لفاجر علی یدا، یعنی یا اللہ مجھ پر کسی فاجر آدمی کا احسان نہ آنے دیجئے ، کیونکہ شریف النفس انسان اپنے محسن کی محبت پر طبعاً مجبور ہوتا ہے اس لئے فساق و فجار کا احسان قبول کرنا جو ذریعہ ان کی محبت کا بنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی پناہ مانگی (قرطبی)

وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ۭ، یہاں روح کی تفسیر بعض حضرات نے نور سے کی ہے جو منجانب اللہ مومن کو ملتا ہے اور وہی اس کے عمل صالح کا اور قلب کے سکون و اطمیان کا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ سکون و اطمینان ہی بڑی قوت اور بعض حضرات نے روح کی تفسیر قرآن اور دلائل قرآن سے کی ہے وہی مومن کی اصل طاقت و قوت ہے (قرطبی ) واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

تفسیر تیسیر القرآن (مولاناعبدالرحمن کیلانی)

[٢٦] کافروں سے دوستی رکھنا بھی کفر ہے:۔ یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت دو متضاد باتیں ہیں جو ایک دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں جیسے دن اور رات یا روشنی اور تاریکی ایک ہی وقت میں جمع نہیں ہوسکتے۔ لیکن منافقوں کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ دونوں کام بیک وقت کر رہے ہیں ۔ ان دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھ ہی نہیں سکتے۔ اور اگر دوستی رکھتے ہیں تو کبھی ایماندار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے۔ پھر اللہ کے دشمنوں سے ایک ایماندار کیسے دوستی رکھ سکتا ہے؟

[٢٧] جنگ کے دوران کافر اقرباء سے مسلمانوں کا سلوک:۔ یہ آیت ان صحابہ کی شان میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ کے اس ارشاد پر عمل کرکے دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ غزوہ احد میں سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘سیدنا حمزہ اور عبیدہ بن الحارث نے علی الترتیب عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا۔ ایک دفعہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمن اپنے باپ سے کہنے لگے کہ ابا جان! آپ جنگ میں عین میری تلوار کی زد میں تھے مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا۔ غزوہ احد کے قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا تو سیدنا عمر نے یہ مشورہ دیا کہ ہر آدمی اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن ابی منافق نے آپ کی شان میں ناجائز کلمات کہے تو ان کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا اور سچے مومن تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ اگر آپ حکم فرمائیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں ۔ لیکن آپ نے اپنی طبعی رحم دلی کی بنا پر عبداللہ کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ غرضیکہ سچے ایمانداروں کی تو شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار حتیٰ کہ اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتے۔

تفسیرتفہیم القرآن (ابوالاعلی مودوی)

اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ۔ ایک بات اصولی ہے، اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہرگز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو ۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کرلیں کہ وہ فی الواقع کیا ہیں، مومن ہیں یا منافق؟ اور فی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو ۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں ۔

یہ تو ہے اصولی بات۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمر نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ” ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘۔ ابوعزیز نے کہا ” تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ” حضرت مصعب نے جواب دیا ” اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ” ۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھایا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوا کرتا ہے۔

دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللھم لا تجعل لفاجر (وفی روایۃٍ لفاسق)عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ” خدایا،کسی فاجر (اور ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو ۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے۔ “

تفسیرکنزالایمان (احمدرضابریلوی)

(ف59) یعنی مومنین سے یہ ہوہی نہیں سکتا اور ان کی یہ شان ہی نہیں اور ایمان اس کو گوارا ہی نہیں کرتا کہ خدا اور رسول کے دشمن سے دوستی کرے ۔مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بددینوں اور بدمذہبوں اور خدا و رسول کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں سے مودّت و اختلاط جائز نہیں ۔

(ف60) چنانچہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے جنگ اُحد میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روز بدر اپنے بیٹے عبدالرحمن کو مبارزت کے لئے طلب کیا لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس جنگ کی اجازت نہ دی اور معصب بن عمیر نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو روز بدر قتل کیا اور حضرت علی بن ابی طالب و حمزہ و ابو عبیدہ نے ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کو اور ولید بن عتبہ کو بدر میں قتل کیا جوان کے رشتہ دار تھے ، خدا اور رسول پر ایمان لانے والوں کو قرابت اور رشتہ داری کا کیا پاس ۔

تفسیرمدنی کبیر (مولانا اسحاق مدنی)

[64] ایمان و کفر کی دوستی کبھی یکجا نہیں ہوسکتی:

سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ایمان والے خدا کے دشمنوں سے کبھی دوستی نہیں کر رکھ سکتے، پس جہاں کہیں مسلمانوں کو ظاہری طور پر ایسے لوگوں سے میل جول رکھنا پڑے وہ الگ چیز ہے، لیکن باطن کا تعلق اور دلوں کی محبت خدا و رسول کے دشمنوں ، باغیوں اور سرکشوں اور ملحدوں منکروں سے ایک مومن صادق کے لیے ممکن ہی نہیں، پس جو شخص ایک محبوب سے بھی دوستی رکھے اور اس کے دشمن سے محبت بھی رکھے وہ اپنے دعوی ایمان میں یقینا جھوٹا ہے، سو اس ارشاد سے منافقین کے سامنے حق اور باطل کے درمیان کے پرکھ اور تمیز کیلئے ایک واضح کسوٹی رکھ دی گئی، بہرکیف اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان اور کفر کی دوستی یکجا نہیں ہو سکتی کہ یہ اجتماع ضدین ہے جو عقلاً محال ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔

[65] ایمان کا رشتہ سب رشتوں سے اعلیٰ و بالا :

سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایمان والوں کی دوستی اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے نہیں ہوسکتی اگرچہ وہ ان کے باپ بیٹے وغیرہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ باپ کا حکم ماننا اگرچہ ضروری ہوتا ہے، بیٹوں کے ساتھ قلبی لگاؤ اگرچہ سب سے زیادہ ہوتا ہے، بھائی اگرچہ دست و باز ہوتے ہیں، اور کینہ قبیلہ اگرچہ انسان کا عموما ڈھارس بنتا ہے، مگر اس سب کے باوجود دولت ایمان کے مقابلے میں یہ سب رشتے ہیچ ہیں اس لیے ایک مومن مخلص ایمان کے مقابلے میں ان کو کسی بھی قیمت پر خاطر میں نہیں لا سکتا، جیسا کہ حضرات صحابہء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس ضمن میں قائم کیں سنہری اور تابناک مثالیں پیش فرمائیں، چنانچہ بدر میں حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عملی طور پر اس کی ایسی عظیم الشان اور نادر مثالیں قائم فرمائیں کہ چشم فلک نے ان کی کوئی نظیر و مثال نہ اس سے پہلے کبھی دیکھی ہوگی ، اور نہ ہی آئندہ قیامت تک کبھی دیکھ سکے گی۔ چنانچہ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ عبد اللہ بن جراح کو قتل کیا، اور سیدنا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھائی عزیز بن عمیر کو قتل کیا، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوگئے، سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عتبہ و شبیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا، جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسیران بدر کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ ان کو قتل کر دیا جائے، اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ کو قتل کرے اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی سلول کے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جو کہ ایک مخلص مسلمان تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کا سرکاٹ کر لانے کی اجازت چاہی، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار فرمانے پر وہ اس سے رک گئے ” فرضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم وارضاھم ” سو دین و ایمان کا رشہ سب رشتوں پر فائق اور سب سے اعلیٰ و بالا رشتہ ہے، باقی سب رشتے اس کے بعد ہیں ۔ والحمدللہ رب العالمین الذی بمنہ وکرمہ تتم الصالحات جل جلاہ وعم نوالہ ، وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی نبیک وصفیک وخلیلک وحبیبک سیدنا محمد وعلی الہ الطیبین واصحابہ الطاھرین۔

[66] حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان سچا اور پکا :

سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے نقش فرما دیا ایمان کو ۔ ان کے صدق و اخلاق کی بناء پر، اور نفش میں جب عام نقش بھی اپنے منقوش سے الگ نہیں ہوتا ، تو پھر اس نقش کے کہنے ہی کیا جو اللہ پاک اپنے ایسے پاک طینت اور مخلص بندوں کے دلوں پر فرما دے۔ ” اللہم فاکتب الایمان فی قلوبنا ” ۔ سو جو لوگ اس کسوٹی پر اپنے آپ کو پرکھنے پر کھوانے کیلئے تیار ہوں، درحقیقت وہی لوگ ہیں، جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت اور نقش فرما دیا، اپنے فضل و کرم سے ان کے صدق و اخلاق کی بناء پر اور ان کو اس اہب مطلق نے اپنی طرف سے ایک خاص فیضان روحانی سے نواز دیا کہ اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے، اور لگاتار نوازنا اور کرم فرمانا ہے، سبحانہ وتعالیٰ، وہ لوگ جو زبانی کلامی طور پر دعوی تو ایمان کا کرتے ہیں لیکن وہ ساز باز اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے رکھتے ہیں، تو ایسے لوگ محض زبان کے مسلمان ہیں ان کے دل لذت ایمان سے آشنا نہیں ہوئے، سو اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حضرات صحابہء کرام رضی اللہ عنہم سچے پکے مومن تھے، اور ان کا ایمان ان کے دلوں میں نقش تھا اور جب اللہ فرماتا ہے اور صاف اور صریح طور پر فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا، تو پھر اللہ کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے؟ پس جو بدبخت حضرات صحابہٗ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا انکار کرے یا اس میں کسی طرح کا شک کرے تو وہ ایسی آیات کریمہ کے انکار کی بناء پر خود کافر قرار پائے گا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔

Bookmark the permalink.