وَلَا تَشْتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ (البقرۃ:۴۱)
’’اور میری آیات کو تھوڑی قیمت کے بدلے مت بیچو اور مجھ ہی سے ڈرو ‘‘
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اﷲ کے آخری رسول صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا تھا:
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانْ قَبْلَکُمْ
‘‘تم گزشتہ امتوں کی ضرور پوری طرح پیروی اختیار کروگے۔’’
(بخاری:کتاب الاعتصام،باب قول النبی رسول صلّی اللہ علیہ وسلم لتتبعن۔۔۔۔۔۔)
یہ پیشین گوئی آج حقیقت کے روپ میں سب کے سامنے ہے، کون سا ایسا کام ہے جو گزشتہ امتوں نے کیاہو اور اِنہوں نے چھوڑدیا ہو۔ قبر پرستی کی لعنت ہو یا پیروں اور مولویوں کو رب بنانے کامعاملہ، غرض سرکشی و نافرمانی کا کوئی ایسا کام نہیں جو اُنہوں نے اختیار کیا ہو اور اِنہوں نے اُسے ترک کیا ہو۔ بات محض عوام کالانعام کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس امت کے پیر اور مولوی نے گزشتہ امتوں کے پیروں اور مولویوں کی قدرے نہیں بلکہ مکمل طور پر تقلید اور پیروی اختیار کی ہے۔ وہ حق اور باطل میں تلبیس کیا کرتے تھے اور اِنہیں بھی یہ کام بے حد مرغوب ہے۔ وہ لوگوں کو اﷲ کے راستے سے روکتے تھے اور اِ ن کا گزارا بھی اِس کے بغیر نہیں ہوتا۔ اِن کا کام چلتا ہی اس وقت ہے جب یہ لوگوں کو اﷲ کے راستے سے روک دیں۔ اُنہوں نے دینداری کی آڑ میں دکانداری کی تو یہ بھی دین کی آڑ میں اپنی دکان چمکائے ہوئے ہیں۔ اور اس معاملے میں تو اِنہوں نے حد ہی کردی ہے۔ پورے دین کو گویا منافع بخش پیداواری صنعت بنادیا ہے۔ اِن کے یہاں نماز بِکتی ہے، اِن کے امام اور موذن بغیر اجرت کے یہ امور انجام نہیں دیتے۔ قرآن و حدیث کا بیوپار کیا جارہا ہے۔ قرآن پڑھنا اور سکھانا ایک پیشہ بن گیا ہے جس کو دنیا کمانے کے لیے اختیار کیا جاتاہے۔ مولوی صاحب قرآن کی تعلیم بغیر اجرت لیے نہیں دیتے۔ مفتیانِ دین باقاعدہ تنخواہ لیکر فتویٰ دیتے ہیں۔ نکاح خوشی کا موقع ہوتا ہے تو قاضی صاحب جب تک نکاح پڑھانے کی زیادہ سے زیادہ اجرت نہ لے لیں ’’خوش‘‘ ہی نہیں ہوتے۔ بچے کے کان میں اذان دینے کا نذرانہ وصول کیا جاتا ہے۔ ’’بِسْمِ اللہ‘‘اور ’’اَلَمْ نَشْرَح‘‘ نامی بدعی رسومات بھی مولوی صاحب کے پیٹ کی آگ بجھانے کے سامان ہیں۔ اور بے شمار معاملات ہیں جو انسانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم کردئیے گئے ہیں۔ مگر افسوس کہ مولوی صاحب مرنے پربھی اس معاملے کو ختم نہیں ہونے دیتے بلکہ ’’ کڑوی روٹی‘‘ ،فاتحہ خوانی سے شروع کرکے تیجہ، دسواں، بیسواں ، چالیسواں اور برسی کی صورت میں میت کے لواحقین سے ’’بھتہ‘‘ وصول کرتے رہتے ہیں کیونکہ مرنے والا مراہے مولوی صاحب تو تازہ دم ہیں، یہ تو جیتے جی نہیں مرسکتے ، اور جینے کے لیے کھانا اور کمانا ازبس ضروری ہے ! قرآن بنی اسرائیل کے علماء کی یہی روش بتاتا ہے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے تھے اور انہیں اﷲ کے راستے سے بھی روکتے تھے