جادو کی لغوی اور اصطلاحی تعریف

جادو کی لغوی اور اصطلاحی تعریف

 سحر چونکہ عربی کا لفظ ہے اس لئے سب سے پہلے اسکا مفہوم و معنی لغت سے معلوم کر تے ہیں چنانچہ المنجد کے صفحہ نمبر۷۶۰ پرسحر کے حسب ذیل معنی ہیں ۔
۱۔سحرِمص سحر وہ چیزہے جس کا مأخذ لطیف و باریک ہو جھوٹ کوسچ بنا کر دکھانا، حیلہ سازی کرنا، فساد کرنا۔
۲۔سحرِ الکلامی: کلام کی رنگین بیانی جودلوں پر اثرکرکے خیالات میں انقلاب پیدا کرے ۔
۳ ۔سحرِہ‘۔ ف:دھوکا دینا ،جادوکرنا، فریفتہ کرنا، جادو سے کسی کا دل لبھانا۔
۴ ۔ سحرِالفضتہ:چاندی پر سونے کا پانی چڑھا نا یعنی سونے کا گلٹ کرنا۔
اورشیخ زادہ یہ تعریف نقل کرتے ہیں :
 قَالَ الْاِمَامُ ذَکَرَ اَھْلَ الْلُفَۃِ اَنَّ السِّحْرِ فِی الْاَ صْلِ عِبَارَۃٌ عَمَّّّّا لَطَفَ وَ خَفِیَ سَبَبُہٗ ۔
ترجمہ: امام نے فرمایاکہ اہل اللفتہ کہتے ہیں جادو اصل میں ایسی چیزکوکہتے ہیں جس کے اسباب بالکل باریک اور لطیف اور مخفی ہوں۔(حاشیہ بر تفسیربیضاوی شیخ زادہ ۳۷۱)
 وَفِیْ عُرْفِ الشَّرْعِِ مُخْتَصٌّ بِکَلِّ اَمْرٍ یَخْفِیْ سَبَبُہٗ وَیَتَخَیَّّلُ عَلٰی غَیْرِحَقِِیْقَۃٍ وَیَجْرِیْ مَجْرَی التَّمُوِیْہِ وَالخِدَاعِ۔ ( حاشیہ شیخ ذادہ ۳۷۱ )         
ترجمہ : اور شریعت کی اصطلاح میں جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے اسباب مخفی ہوں اور اس سے حقیقت کے خلاف خیال پیدا کر دیا جائے اور اس سے دھوکہ و فریب دیا جائے ۔
قرآن مجید میں بھی سحرکو جھوٹ اور دھوکہ کہا گیا ہے۔
 سَیَقُوْ لُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ o          ( ــــ المومنون۔۔۔ ۸۹ )
ترجمہ : کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے فرما دیجئے پھرتمہیں کہاں سے دھوکہ لگا ہے ۔

لغو ی اور اصطلاحی معنی کے لحاظ سے جادو کے مخفی اسباب ہوتے ہیں جو لوگوں سے کمال چالاکی سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں صرف ہاتھ کی صفائی ، کمال فن اور عقیدے کی خرابی سے لوگوں کے خیال بدل دیئے جاتے ہیں اسی طرح لوگوں کو دھوکہ وفریب نظر وخیا ل دے کر کچھ کا کچھ دکھایا جاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز کرتے ہیں۔ جس طرح ابنِ کثیر نے نقل کیا ہے کہ ایک شعبدہ با ز مدا ری آدمی کا سر بدن سے جدا کر کے ٹھیک کر دیتا تھا ۔ایک صحا بیؓ رسول اس شعبدہ باز کا سر تلوار سے قلم کر دیا اور فر ما یا اپنا سر اپنی گردن سے جو ڑ لے ۔باقی یہ بات بالکل سو فیصد غلط ہے کہ جادو کو ئی کلام، تعو یذگنڈا، جنتر منتر، کا لا پیلا ،روحانی، نورانی، سفلی علم ہے جس سے ما فوق الاسباب حقیقتاً کسی کو نفع ونقصان دیا جا سکتا ہو صحت مند کو بیمار اور بیمار کو صحت مند، غریب کو امیر اورامیر کو غریب ،زندہ کو مردہ اور مرد ہ کوزندہ ،بے اُولاد کو اُولاد  والا اور اُولاد وا لے کوبے اولاد کیا جا سکتا ہو یہ تمام صفات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْطھَلْ مِنْ شُرَکَآئِ کُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِکُمْ مِّنْ شَیْئٍ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o    (روم۔۔۔۴۰ )
ترجمہ : اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تمھیں رزق دیا پھر وہ تم کو موت دیتا ہے پھر وہ تم  کو زندہ کرے گا کیا تمھارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔