شہدا اپنی وفات کے بعد کہاں زندہ ہیں؟

nabi s.a.w aur shuhada kahan zinda hain

شہدا اپنی وفات کے بعد کہاں زندہ ہیں
وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ١٥٤؁
’’ اور مت کہو انہیں مردہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کاشعور نہیں ‘‘ ( سورہ بقرہ :154)
غزوہ بدر کے بعد نازل ہونے والی اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ جو اللہ کی راہ میں قتل کردئے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، ایک طرف تو اللہ تعالی خود فرما رہا ہے کہ ’’ جو اللہ کی راہ میں قتل کردئے جائیں ‘‘ یعنی جو قتل کردیا گیا وہ مر گیا، لیکن تم انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، ساتھ اس بات کو بھی بیان کردہ گیا کہ انسانوں کو اس زندگی کا شعور نہیں، گویا یہ زندگی اس طرح کی زندگی نہیں جیسا کہ اس دنیا میں ہوتی ہے اورجس کا انسانوں کو شعور ہوتا ہے۔
غزوہ بدر کے موقع پر شہید ہو گئے ، انکی والدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں، ملاحظہ فرمائے یہ حدیث :
حدثني عبد الله بن محمد حدثنا معاوية بن عمرو حدثنا أبو إسحاق عن حميد قال سمعت أنسا يقول أصيب حارثة يوم بدر وهو غلام فجائت أمه إلی النبي صلی الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله قد عرفت منزلة حارثة مني فإن يک في الجنة أصبر وأحتسب وإن تکن الأخری تری ما أصنع فقال ويحک أوهبلت أوجنة واحدة هي إنها جنان کثيرة وإنه لفي جنة الفردوس
’’ عبداللہ بن محمد، معاویہ بن عمرو، ابواسحاق حمید سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا میں نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ حارثہ بدر کے دن شہید ہوئے تو وہ کمسن تھے ان کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ جانتے ہیں کہ حارثہ کا مرتبہ میرے دل میں کیا ہے، اگر وہ جنت میں ہوا تو میں صبر کروں گی اور اگر دوسری جگہ ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں آپ نے ویحک یا ھبلت فرمایا کیا جنت ایک ہی ہے، جنتیں تو بہت سی ہیں اور وہ جنت الفردوس میں ہے۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1480 حدیث مرفوع ،مکررات 5

معلوم ہوا کہ شہید جنت الفردوس میں زندہ ہیں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر کافی تعداد میں صحابہ شہید ہوئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو یہ آیات نازل ہوئیں:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦٩؁ۙ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ١٧٠؁ۘ يَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٧١؁ڧسور آل عمران : آیت 169 تا 171
’’ اور انہیں مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے رب کے پاس، رزق پاتے ہیں ‘‘۔ ’’ جو کچھ اللہ کا ان پر فضل ہو رہا ہے اس سے وہ بہت خوش ہیں اور ان لوگوں کےلئے بھی خوش ہوتے ہیں جو ان کے پیچھے ہیں اور ابھی تک (شہید ہوکر) ان سے ملے نہیں، انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے‘‘۔’’ اللہ تعالیٰ کا ان پر جو فضل اور انعام ہو رہا ہے اس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘۔

اسی سورہ میں ان آیات سے قبل یہ بھی نازل ہوا ہے :
اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا ۭ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١٦٨؁
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو پیچھے بیٹھ رہے اور اپنے بھائی بندوں سے کہنے لگے”: اگر تم ہمارا کہا مانتے تو (آج) مارے نہ جاتے” آپ ان سے کہئے کہ : اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اپنے آپ سے ہی موت کو ٹال کر دکھلا دو ‘‘۔
یعنی ان کے کافر و مشرک رشتہ دار جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے تو آج مارے نہ جاتے اور اس طرح خومخواہ میں اپنی زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے،تو ان کو کہا گیا کہ اگر واقعی تم سچے ہیں تو اپنی موت کو ٹال کر دکھاو، گویا یہ ثابت ہوا کہ ان شہدا کو موت آ گئی تھی، انہیں مردہ ہی سمجھا گیا اور اسی بنائ پر انہیں دفنایا گیا۔ غزوہ بدر کی طرح اب پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان آیا کہ وہ جو اللہ کی راہ میں مار دئے گئے ہیں ان کے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جا رہا ہے، مزید یہ کہ اس شہادت پر انہیں ان کے رب کی طرف سے جوعظیم اجر ملا ہے اس پر وہ بہت خوش ہیں اور انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ واضح ہوا کہ انہیں مردہ سمجھ کر افسردہ ہونے والوں کو بتایا گیا ہے کہ جو اس غزوہ میں شہادت کے بعد موت سے ہمکنار ہوگئے وہ اللہ کے پاس زندہ ہیں، جہاں انہیں اجر عظیم سے نوازا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ یہ شہدا کہاں زندہ ہیں:
حدثنا يحيی بن حبيب بن عربي حدثنا موسی بن إبراهيم بن کثير الأنصاري قال سمعت طلحة بن خراش قال سمعت جابر بن عبد الله يقول لقيني رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال فقال يا عبدي تمن علي أعطک قال يا رب تحييني فأقتل فيک ثانية قال الرب عز وجل إنه قد سبق مني أنهم إليها لا يرجعون قال وأنزلت هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا الآية
یحیی بن حبیب بن عربی، موسیٰ بن ابراہیم بن کثیر انصاری، طلحة بن خراش، جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد سے ربرو گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات میری طرف سے طے کی جا چکی ہےکہ انہیں دنیا میں واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ۔ ۔ ۔ )جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 947

حدثنا ابن أبي عمر حدثنا سفيان عن الأعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق عن عبد الله بن مسعود أنه سل عن قوله ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحيا عند ربهم يرزقون فقال أما إنا قد سألنا عن ذلک فأخبرنا أن أرواحهم في طير خضر تسرح في الجنة حيث شات وتأوي إلی قناديل معلقة بالعرش فاطلع إليهم ربک اطلاعة فقال هل تستزيدون شيا فأزيدکم قالوا ربنا وما نستزيد ونحن في الجنة نسرح حيث شنا ثم اطلع إليهم الثانية فقال هل تستزيدون شيا فأزيدکم فلما رأوا أنهم لم يترکوا قالوا تعيد أرواحنا في أجسادنا حتی نرجع إلی الدنيا فنقتل في سبيلک مرة أخری
ابن ابی عمر، سفیان، اعمش، عبداللہ بن مرة، مسروق، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت ولا تحسبن الذین۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے بھی اسکی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کی (یعنی شہداء کی) روحیں سبز پرندوں کے جسموں میں ہیں جو جنت میں جہاں چاپتے ہیں وہاں پھرتے ہیں۔ ان کا ٹھکانہ عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا اور پوچھا کیا تم لوگ کچھ اور بھی چاہتے ہو جو میں تمہیں عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا اللہ ہم اس سے زیادہ کیا چاہیں گے کہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اسی طرح کیا تو ان شہداء نے سوچا کہ ہم اس وقت تک نہیں چھوٹیں گے جب تک کوئی فرمائش نہیں کریں گے۔ تو انہوں نے تمنا ظاہر کی کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں واپس کر دی جائیں تاکہ ہم دنیا میں جائیں اور دوبارہ تیری راہ میں شہید ہو کر آئیں۔ جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 948
حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا عبد الله بن إدريس عن محمد بن إسحق عن إسمعيل بن أمية عن أبي الزبير عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم لما أصيب إخوانکم بأحد جعل الله أرواحهم في جوف طير خضر ترد أنهار الجنة تأکل من ثمارها وتأوي إلی قناديل من ذهب معلقة في ظل العرش فلما وجدوا طيب مأکلهم ومشربهم ومقيلهم قالوا من يبلغ إخواننا عنا أنا أحيا في الجنة نرزق للا يزهدوا في الجهاد ولا ينکلوا عند الحرب فقال الله سبحانه أنا أبلغهم عنکم قال فأنزل الله ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله إلی آخر الآية
عثمان بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق ، اسماعیل بن امیہ، ابوزبیر، سعید، بن جبیر، عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز رنگ کے پرندوں کردیا ، وہ جنت کی نہروں پر اترتی اور اس سے سیراب ہوتی ہیں اور اس (جنت) کے پھل کھاتی ہیں اور سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے سایہ میں لٹکے ہوئے ہیں جب ان کی روحوں نے کھانے پینے اور آرام و راحت کی لذت محسوس کی تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں تک یہ خوشخبری پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں کھانے پینے کو ملتا ہے (ہم ان کو یہ خوشخبری اس لئے سنانا چاہتے ہیں تاکہ) وہ جہاد سے بے توجہی نہ برتیں اور کفار سے قتال و جدال میں پیچھے نہ ہٹیں پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری یہ خوشخبری ان تک پہنچا دوں گا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترجمہ) جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انکو مردہ ہرگز مت کہو بلکہ وہ اپنے رب کےپاس زندہ ہیں اور وہاں کے رزق سے فیض یاب ہیں۔

واضح ہوا کہ شہدا کی وفات کے بعد ان کی روحین ان کے دنیاوی جسموں میں نہیں بلکہ اڑنے والی سبزرنگ کے جسموں میں ہیں (دیگر احادیث میں انسانی جسم کے مانند اجسام کا بھی ذکر ملتا ہے )۔
شہید سے اللہ تعالی کلام بھی کرتا ہے لیکن جب وہ اس بات کی خواہش کرتا ہے کہ اس کی روح کو واپس اس کے جسم میں ڈالدیا جائے اور دوبارہ اس دنیا میں بھیج دیا جائے تو اللہ تعالی نے فرمایا : إنه قد سبق مني أنهم إليها لا يرجعون ’’ یہ بات میری طرف سے طے کی جا چکی ہےکہ انہیں دنیا میں واپس نہیں بھیجا جائے گا ‘‘۔
یہ کہ شہید ان دنیاوی قبروں میں نہیں اللہ تعالی کے پاس اس کی جنتوں میں زندہ ہیں۔ انہی جنتوں میں انہین ہر قسم کا نعمتیں عطا کی جا رہی ہیں۔
واضح ہوا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ شہدا ان دنیاوی قبروں میں زندہ ہیں قرآن اور حدیث کا انکار ہے۔

Bookmark the permalink.