اسلام میں نظر بد کا تصور

 

*نظر سے نظر لگی!!*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے رکو ذرا! کیا ہے امی؟ کم بخت رکو تو صحیح۔ نظر? اتاردوں۔ میرے بیٹے کو کہیں نظر نہ لگے۔

سڑک کے کنارے لوگ بیٹھے ہیں۔ میاں گل اپنے گدھے پر سامان کے ساتھ گھر جا رہا ہے۔ کسی نے کہا یار دیکھو تو صحیح یہ میاں گل کا گدھا کیسے اچھا بھاگ رہا ہے۔ ٹھیک دو منٹ بعد وہ گدھا ٹھوکر کھا کر گرتا ہے۔ سب ہنستے ہیں۔ سب نے کہا یار میاں گل کے گدھے کو نظر لگ گئی اس لیے گرگیا۔

*نیا خوبصورت گھر!!*

بہت خوبصورت گھر بن گیا۔گھر کے مالک گلاب شیر نے گائے کے گوبر اور بیل کا سینگ اپنے گھر کے اوپر لٹکا دیا۔

اسی محلے میں جب دجال خان ماما نے گھر بنایا تھا تو اس کے اوپر اس نے کالا کپڑا ? لٹکادیا تھا۔

پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ چیزیں مثلاً گائے ?کا گوبر، بیل ? کا سینگ ،گھوڑے ? کا نال اور کالا ? کپڑا یہ نظرِبد سے بچاتے ہیں۔

*میں سوچنے لگا !!*

میں سوچنے لگا کہ یہ نظر بد سے کیسے بچاتے ہے۔ سرور ماما اگر ہاتھ میں بندوق لیئے کھڑا ہے تو دشمن کا مقابلہ اسی بندوق سے کرتا ہے کیونکہ بندوق ایک ذریعہ یا سبب ہے۔
بندوق سے قتل ہوسکتا ہے جبکہ گائے کا گوبر کیسے نظربد سے بچاتا ہوگا۔

گلاپ شیر نے کہا گوبر نظر بد سے بچاتی ہے میں نے کہا کیسے؟?

کہنے لگا بچاتا ہے بس ۔
سوچ میں پڑ گیا کہ بندوق اسباب استعمال کرتی ہے جب ہی تو حفاظت کرسکتی ہے۔ ٹینک میں گولی ہوتی ہے جب ہی تو دشمن کو نقصان دے سکتی ہے۔ اب اس کالے کپڑے،گھوڑے کے نال اور بیل کا سینگ میں کیا اسباب ہیں؟

جواب آیا کہ گوبر نظر بند سے بچاتا ہے بس۔
میں نے کہا اچھا اس میں تو بہت پاور ہے۔ پھر تو اس کا نام ”گوبر شریف“ ہونا چاہیئے۔ ویسے گوبر میں پاور تو کافی ہے کیونکہ جب اندھیرے میں بندہ گوبر پر پاٶں رکھ لیتا ہے تو اک دم گوبر شریف اس پریشر کو جذب کرلیتا ہے اور گوبر خود کو نقصان دے کر اس بندے کو گرا دیتا ہے۔ بندے کو پاٶں دھونے پڑتے ہیں۔ کافی پاور ہے۔

*عبادت کیا ھے؟*

اسباب کے بنا ہم مسلمان جس ذات پر بھروسہ کرتے ہیں وہ اللہ ہے۔ ہم کہتے ہیں نفع ونقصان اسباب کے بغیر یہ صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم کسی تار،دھاگے،گوبر،گھوڑے کا نال وغیرہ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ ہمارے گھروں کو نظربد سے بچاتا ہے تو معاف کیجئے ہم اللہ کے سوا ان بیکار چیزوں کی عبادت کر رہے ہیں۔ کالا جھنڈا میرا کیا بگاڑ لے گا؟ گھوڑے کا نال میرا کیا بگاڑ لے گا؟ گوبر ایک جگہ پر پڑا ہے کوئی اسے ہاتھ تک نہیں لگا رہا یہ گوبر شریف کچھ نہیں کیا کرسکتا۔

*ہندوستان کا ہندو میاں!!*
آپ سب جانتے ہیں کہ ہم مسلمان بڑے فخر کیساتھ یہ کہتے ہیں۔ ارے یار چھوڑو ہندو تو گائے کی عبادت کرتے ہیں وہ تو بہت غلیظ ہیں۔ اس طرح کی گفتگو آپ نے ضرور سنی ہوگی کہ ہندو گندے لوگ ہیں گائے کی پوجا کرتے ہیں۔

*لیکن!!*

لیکن ہم کیسے پاک صاف ہوئے ہم تو ان سے گئے گزرے ہیں۔ ایک ہندو زندہ گائے کی عبادت کرتا ہے جب کہ گلاپ شیر جو خود کو مسلم کہتاہے وہ مری ہوئی گائے کے گوبر کی عبادت کرتا ہے،مرے ہوئے بیل کے سینگ کی عبادت کر رہا ہے جو کالے کپڑے کی عبادت کر رہا ہے۔یہی گلاپ شیر ٹوٹی ہوئی ہانڈی کی عبادت کر کررہا ہے۔ اب ہندو گندا ہے کہ گلاپ شیر؟ گلاپ شیر نے تو حدیں پار کر دی۔ یہ کون سا اسلام ہے؟

*اول تو یہ سمجھیں!!*

اول تو یہ جان لیں کہ نظر لگتی ہے بے شک لیکن کیسے لگتی ہے۔ ایسے لگتی ہے جیسے مجھے رات رات نظر آتی ہےاور دن دن نظر آتا ہے۔ گدھا گدھا نظر آتا ہےاور گھوڑاگھوڑا نظر آتا ہے۔ یہ کسی کو بیمار کرنے کے لیے یا کسی کو گرانے کے لیے نہیں لگتی۔

یہ نظر کیا ہے؟ کیا یہ مخلوق نہیں ہے؟ اگر مخلوق ہے تو وہ بات یاد کریں کہ ”مخلوق سے نہ ہونے کا یقین“ اور ”خالق سے ہونے کا یقین“۔

*لوگ اتنا ڈرتے ہیں!!*

لوگ اتنا ڈرتے ہیں جیسے ہر کسی کی نظر میں ایٹم بم لگا ہے اور کسی بھی وقت فائر ہوسکتا ہے۔
اور اسی فائر کو گوبرشریف،نال،سینگ،دھواں بچائے گا۔ ولاحولاواللہ قوتہ
اس سے زیادہ افسوس کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ ?

پورا قرآن ایسی باتوں سے خالی ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ نفع ونقصان کے سارے اختیارات ایک اللہ کے پاس ہیں۔ مخلوق بشمول نظر کوئی اختیار نہیں رکھتا ہے نہ گوبر شریف کیساتھ یہ اختیار ہے۔ حد ہوگئی یار بدعقیدگی کی انتہاء ہے ویسے!! یہ ہندوستانی توحید ہے۔ جہاں پر منی یعنی چھوٹے چھوٹے گاڈز بنائے گئے ہیں جس سے نفع اور نقصان کی امیدیں کی جارہی ہیں۔

*گوبر کی بیڑی ختم ہوگئی!!*

طوفان کے ساتھ بارش? بھی بہت تیز ہورہی تھی۔ گلاپ شیر کا آدھا مکان گر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلاپ شیر نے اپنے گھر کے اوپر دو گوبر رکھے تھے۔ ایک چھوٹا گوبر اور ایک بڑا گوبر۔ لیکن مکان کا وہ حصہ گر گیا جہاں گوبر کا بڑا حصہ رکھا گیا تھا۔ گوبر گھر کو بچانے میں ناکام رہا۔

گاٶں کے عامر خان نے کہا کہ یار بڑے سائز والے گوبر کی بیٹری ختم ہوئی ہوگی۔ ?

*المیہ یہ ہے!!*

المیہ یہ ہے کہ اسی بدعقیدگی کی دلیلیں قرآن سے دی جاتی ہیں۔آئیں ان کے دلائل کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔

قرآن کی آیت پیش کرتے ہیں کہ

”وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ [٦٨:٥١]

اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپﷺ کو اپنی تیز نگاہوں سے پھسلا دیں جب کہ انہوں نے قرآن سنا اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے “

یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو نظربد قرآن سے ثابت ہے۔ اب عقل پر ایٹم گر چکا ہے یہاں نظربد کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔

بات یہ ہے کہ یہ کافر محمدﷺ کو بری اور قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیوں کہ قرآن مجید کا سننا مشرکین مکہ کو ناگوار گزرتا تھا اور نبی کو قرآن سنانے سے باز رکھنے کے لئے ڈراتے تھے۔

*تفسیر ثنائی!!*

تفسیر ثنائی میں اس آیت کی تفسیر یوں ہے

”تیرے زمانے کے منکرین بھی کم ایسے شدید الغضب ہیں کہ جب نصیحت سنتے ہیں تو ایسے آگ بگولہ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے کو یقین ہو جائے کہ قریب ہے کہ گھور گھور کر اپنی نیلی پیلی آنکھوں کے خوف سے تجھے تیرے عزم مصمم سے پھسلادیں اور بجائے اس کے کہ اپنے جوش کو جنون کہتے ہیں کہ تحقیق یہ رسول مجنون ہے جو سب دنیا کے خلاف تعلیم دیتا ہے کبھی کہتا ہے کہ معبود سب کاایک ہے کبھی کہتا ہے کہ مر کر اٹھنا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ، حالانکہ وہ قرآن کی تعلیم دیتا ہے جو تمام دنیا کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے نہ اس میں کوئی بات خلاف عقل ہے نہ خلاف نقل ہاں! ان کی کج طبائع کے خلاف ہے “

(تفسیر ثنائی جلد ۸ ص ۹۵)

درج بالا آیت میں مشرکین مکہ کی محمدﷺ اور قرآن سے دشمنی کا نقشہ کھینچا گیا ہے نہ کہ نظر بد کی تاثیر کا اثبات۔
یعنی جب یہ کافر قرآن سنتے ہیں جب نبی توحید کی دعوت دیتاہے تو یہ گھور گھور کر دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تجھے پریشیرائز کریں اور تجھے تمہارے مشن سے ہٹادیں۔
سادہ سی بات ہے یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا سکتے ہیں آپکو بیمار کر سکتے ہیں یا آپ کو گرا سکتے ہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ چاہتے یہ ہیں کہ محمدﷺ کو اپنے مشن سے ہٹا دیں،

گلی کا کتا جب غصہ ہوجاتا ہے اور قہرآلودہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اس کا ارادہ نظربد ? کا نہیں ہوتا بلکہ وہ حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری بات ہے کہ اگر نظر بد کا عقیدہ درست ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ کے دوران اور صحابہ کرام رض کو کافرلوگ نظربد سے گرا دیتے،جنگ جیت جاتے لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ جنگ میں مسلمان کافروں کی ایسی کی تیسی کرتے تھے۔

یہی توحید کی دعوت ان کو ناخوشگوار گزرتی ہے یہی نقشہ سورہ جن آیت ۲۹ میں بھی کھینچا گیا ہے

وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا [٧٢:١٩]

”اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار ہو گئے “

غور کریں یہاں بھی نبی سے کہا گیا ہے کہ جب آپ توحید کی دعوت دیتے ہیں تو یہ چاہتے ہیں کہ آپ پر ٹوٹ پڑیں ان کو یہ توحید پسند ہی نہیں ہے

ایک اور مقام پر اللہ کہتے ہیں کہ ان کی کوشش یہ ہے کہ

وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا [١٧:٧٦]

”اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے“

مشرک اور کافر لوگوں کی ایک اور حالت اللہ بیان کرتے ہیں

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا

”اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرین حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ اُن لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں“
۲۲:۷۲

آج کے دور میں بھی آپ دیکھ لیں حق کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہوتے ہیں حق کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے حق پرستوں کو بدنام کرنے کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے۔

توحید کو ہم نے سمھجا نہیـں ہے اگر ہم توحید کو سمجھ گئے ہوتے تو یہ باتیں ہم نہ کرتے۔

*میرا پیارا نبی کہتا ہے!*

قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا [٧٢:٢١]

کہو، “میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا”

نبی تو یہ فرماتے ہیں مگر ہم نے کافروں کی آنکھوں کو اختیار دے دیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار ہے پھر لاالہ الااللہ کا کیا مطلب ہے؟ اتنی آسان بات ہمارے
سمجھ میں نہیں آتی؟

*دوسری دلیل !!*

جب یعقوبؑ کے بیٹے مصر جا رہے تھے تو یعقوب ؑنے اپنے بیٹوں کو کہا کہ اے بیٹوں آپ لوگ مصر جارہے ہیں میں آپکو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ

”یعقوبؑ نے کہا اے میرے بیٹو! تم سب ایک ہی دروازہ سے داخل نہ ہونا الگ الگ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔“

یہاں اپنے باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ یعقوبؑ نے اس لئے اپنے بیٹوں سے کہا کہ ایک دروازے سارے مت جانا ورنہ کوئی آپکو نظر بد لگا دینگے حالانکہ ایسی کوئی بات اس آیت میں اور پورے قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے یہ اپنی طرف سے کہا جاتا ہے کہ یعقوبؑ نے اس خیال سے اپنے بیٹوں سے کہا۔یہ بالکل خالص اپنی طرف سے کہا جاتا ہے،یہ قرآن کی بات نہیں ہے۔

حالانکہ بادشاہ کی پلاننگ سے بچنے کے لئے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ایک دروازے سے داخل مت ہونا اور دوسری بات یہ کہ یہاں نظر بد کے قائیلین سے یہ بات پوچھنی چاہئے کہ کیا نظر بد صرف اکھٹے گروپ کو لگ سکتی ہے یا ایک اکیلے فرد کو بھی لگ سکتی ہے ؟
جب اکیلے فرد کو بھی بقول قائیلین نظر بد لگ سکتی ہے تو پھر ان کو جدا جدا کرنے سے کیا فائدہ ؟
یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔

لہذا بات ظاہر ہے کہ اس آیت سے نظر بد کا اثبات سرے سے ہی غلط ہے۔ وہاں نظر بد کی کوئی بات ہی نہیں کہی گئی ہے۔

*امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں !!*

چوں کہ قحط کا زمانہ تھا جس میں چوری ،ڈکیتی اور اس نوع کے دوسرے جرائم بہت بڑھ جاتے ہیں اسی وجہ سے یعقوب نے ان کو رخصت کرتے وقت ہدایت فرمائی کہ شہر میں جب داخل ہونا تو ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ قدیم زمانہ میں بیرونی حملوں سے حفاظت کے لئے ہر قابل ذکر شہر کے گرداگر فصیل اور ہر سمت سے داخل ہونے کیلئے متعین دروازے ہوتے تھے یعقوب نے یہ ہدایت ممکن ہے اس اندیشہ سے فرمائی ہو کہ کہیں یہ لوگ شہر کے شریروں اورغنڈوں کی توجہ کا ہدف نہ بن جائیں ایک ہی وقت میں ایک ہی دروازہ سے گیارہ ذی وجاہت خوش شکل اور باوقار بھائیوں کا اپنے قافلے سمیت شہر میں داخل ہونا ایک جالب توجہ چیز ہو سکتی تھی اور اس کا بھی امکان تھا کہ کچھ شریر لوگ ان کے پیچھے لگ جائیں کہ ان کے پاس مال زیادہ ہوگا اور اس طمع میں ان کے نقصان پینچانے کے درپہ ہو جائیں اس ہدایت کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ تنبیہ فرمادی کہ یہ ایک تدبیر ہے جس کو اپنی دانست میں بہتر سمجھ کر میں تمہیں اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اس تدبیر کو ہرگز ہرگز اس معنی میں نہ لینا کہ یہ تمہیں اس تقدیر سے بچا سکے گی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے وہ اپنی جگہ اٹل ہے ،اصل اختیار اللہ ہی کا ہے ،میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
(تدبر قرآن ج ۴ ص ۲۴۱)

*یعقوب علیہ السلام کا عقیدہ*!!

ایک طرف گلاپ شیر کا عقیدہ تو آپ نے جان لیا ۔اب آئیں یعقوب علیہ السلام کا عقیدہ دیکھتے ہیں۔

اسی آیت میں یعقوب کا وہ زبردست عقیدہ بھی بیان ہوا ہے کہ

وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ [١٢:٦٧]

”میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے“

*عقل کا استعمال کر کے جیو!!*

گلاپ شیر کی طرح یعقوب علیہ السلام کا عقیدہ گوبر پر نہیں تھا اور نہ نظر بد پر تھا بلکہ اللہ کی ذات پر تھا۔

دیکھیے کتنی خوبصورت بات اللہ کے نبیؑ نے کہی ہے کہ حکم صرف اللہ کا ،میرے پاس بھی اختیار نہیں ہے میں صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں۔

یعقوب کاعقیدہ قائیلین نظر بد کی طرح نہیں تھا کہ اس سے فائدہ نقصان ہو سکتا ہے بلکہ یعقوب ؑکا عقیدہ صرف اللہ کی ذات پر تھا وہ نظر کو اللہ کی کے ساتھ شریک نہیں کر رہے تھے۔

*ضعیف روایت!!*

نظر بد کے بارے میں جو روایت بیان کی جاتی ہے وہ ضعیف ہے۔
اس روایت میں عبدلرزاق ایک راوی ہے ۔

ابوداود نے کہا کہ عبدالرزاق معاویہ رض کے حق میں بد گوئی کرتا تھا ،عباس عنبری نے کہا وہ بہت جھوٹا ہے اور ،عبدالرازاق جھوٹا تھا اور حدیث چوری کرتا تھا۔

(تہذیب التہذیب جلد 6 ص 281)

یہ روایت قران کے بھی خلاف ہے۔

*أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ*

کان اور آنکھوں کا مالک کون ہے،؟

سورہ یونس ایت 31

مطلب یہ ہے کہ ان آنکھوں کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے یہ اختیار آنکھوں کے پاس نہیں ہے اور نہ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔

*وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا*

“اور(اللہ) اپنے حکم میں کسی کو بھی شریک نہیں کرتا”

*قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ*

“کہہ دیجیے (اے نبی ﷺ) کہ میں اپنے لیے نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا”
07:188

جب نبی ﷺ کے پاس اختیار نہیں تو مجھے اور آپ کو اور بے شمار آنکھوں والوں کے پاس اختیار کہاں سے آیا؟

مافوق الاسباب دنیا کی کوئی ہستی نہ نفع دے سکتی ہے نہ نقصان۔ یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ کوئی انسان مافوق الا سباب اپنی انکھوں سے نہ کسی فائدہ دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ مخلوق کے پاس اختیار نہیں۔ اگر انکھوں میں اثر ہے پھر ہم اتنی لاکھوں کی فوج کیوں رکھتے کیوں اتنا اس پر خرچ کرتے ۔
توحید کو سمجھیں اللہ کے ساتھ کوئی بھی چیز شریک نہیں ہے۔
مخلوق کے پاس مافوق الاسباب اختیار نہیں ہے۔

مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ

“ان(مخلوق) کو کوئی اختیار نہیں”
28:68

*آپ کے ایمان کا اللہ ہی حافظ*

بیس لاکھ کی گاڑی خرید کر اگر آپ اس کے نیچے گیدڑ کی دم یا پرانی چپل لٹکاتے ہیں تو آپ کی عقل،سوچ،فکر فکراور عقیدے کو ایک سو اکیس توپوں کی سلامی??‍♂۔ اور ایسے عقائد کا پھر اللہ ہی حافظ۔

؎ بتوں کو تھوڑ تخیل کے ہوں یا پتھر کے

ذرا بھی دیر نہ کر لاالہ اللہ

وماعلینا الابلاغ

Bookmark the permalink.